تهرپارکر- بهٹو ازم کی منہ بولتی تصویر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یوں تو قلم بینی کے لیے مابدولت کے پاس الفاظ کی کمی نہیں مگر تهر کی ناگفتہ بہ صورت حال نہ صرف بیان سے باہر ہے بلکہ انسانیت کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ بهی- یہاں بهوک، افلاس اور مرض کا ننگا ناچ شاید بالی ووڈ کے آئٹم سانگز کو شرما دے- مگر کیا کیجئیے جناب، جمہوریت کے علمبردار اپنے کهوکهلے نعرے لگا کر آگے بڑہ جاتے ہیں اور بے چاری روٹی کی ماری تهر کی عوام صرف یہ سوچتی رہ جاتی ہے کہ کیا مفلسی اور تنگدستی کا لبادہ اوڑهنے کے لیے ہی سیاست دانوں کو ووٹ دیےتهے۔

آج 86 سالہ قائم علی شاہ، خواب راحت سے اٹھ کر 94 فراٹے بهرتی گاڑیوں اور 250 پولیس اہل کاروں کے ساتھ تهر میں آ دهمکے- اس شاہی، میرا مطلب جمہوری قافلے کے قیام و طعام کا بندوبست ہوا- اس بات سے قطع نظر کہ اسکا انتظام بهی غریب عوام کے پیسوں سے ہوا، تهر کے عوام کو جهوٹے منہ پوچها تک نہ گیا- یہاں مرغن اور لذیذ کهانوں نے آئین کے ڈوبتے ٹائیٹینک کے ملاحوں کو خوب سیر کیا مگر تهر کے بنجر کهیتوں اور لاغر جانوروں کے مالک، روٹی کے جوٹهے ٹکڑوں اور صاف پانی کی بوندوں کو ترستے رہ گئے- “مدبرین جمہوریت” کی یہ ادا میرے بے کس و بے بس تهر کے بهائیوں کی غربت کا منہ چڑاتی رہی- ان نظاروں کو دیکھ کر راقم کو یہ کہنے میں عار نہیں کہ روٹی، کپڑے اور مکان کے نعرے کو تهر اور اندرون سندھ کے علاقے میں سفاکانہ انداز سے نافذ کیا گیا ہے۔

حکومت سندھ کی دی گئی امداد بهی نظر کا دهوکہ اور مکر و فریب کا نمونہ نکلی- ہزاروں ٹن گندم خاک کی نذر ہوگئی اور منرل واٹر کی بوتلیں ضائع ہوگئیں۔ ستم یہ کہ موبائل ڈسپنسریز پولیس کے اعلی عہدے داروں اور سیاست دانوں کے گهر اور فارم ہاوسز کی زینت بن گئیں- پهر جلتی پر تیل کا کام قائم علی شاہ کے جاہلیت میں لتهڑے قبیح بیان نے کر دیا کہ “تهر میں بچے بهوک سے نہیں، غربت سے مرے ہیں”- شاید شراب کے نشے میں دهت اس فقید العقل انسان نما درندے کو یہ ادراک نہیں کہ بهوک اور فاقے غربت سے آتے ہیں- ناجانے یہ بات سہواً کی گئی یا عمداً، ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ پی پی پی، جمہوریت کا لباس پہن کر بهٹو کی موت کا بدلہ تهر کے لوگوں کو مار کر لے رہی ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پیپلز پارٹی شہیدوں کے نام پر اور معصوم لوگوں کو دهوکہ دے کر ووٹ کے بدلے موت دیتی رہی ہے، وہ بهی ارزاں قیمت پر- تاریخ کے دریچوں میں دیکها جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بهٹو صاحب کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان تها جو پورا نہ ہو سکا- 36 سال بعد بهی وہی نعرہ مگر نتائج ندارد- بهٹو کا ورثہ اب بهوک، کفن اور قبر ہو چکا ہے جسکی عملی مثال ہمیں اندرون سنده، بالخصوص تهر میں نظر آ رہی ہے۔ اب محتاجی اور مسکینی کے دلخراش مناظر چیخ چیخ کر دنیا سے یہ کہہ رہے ہیں کہ
“کل بهی بهٹو زندہ تها، آج بهی بهٹو زندہ ہے”

_________________________

ٹویٹر پر اتباع کیجئیے
@periqlytos

Leave a comment