قرآن، شانِ نزول، سپریم کورٹ اور نظامِ انصاف

بسم الله الرحمن الرحیم

آجکل  سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسی کا کیس خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ دلائل دیتے ہوئے فروغ نسیم صاحب نے سورة البقرة کی آیت 187، هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (تمہاری عورتیں تمہارا پردہ اور تم اپنی عورتوں کا پردہ) کا حوالہ دیا۔ سجاد علی شاہ صاحب نے پوچھا کہ اسکی شان نزول بھی بتادیں۔ پھر فرمایا کہ آپ تو اسکی شان نزول بھی نہیں جانتے کہ یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔ نہ آپ فقہی ہیں، نہ ہم۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ یہ آیت اس کیس کے متعلقہ نہیں ہے۔ آپ ہمیں ایک خطرناک صورت حال کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یوں لا یعنی اور تکنیکی پوائنٹس اٹھا کر کیس کو مزید طوالت دے کر قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔

مائی لارڈ! سورة البقرة کی آیت نمبر 187 کی شان نزول پر آپ نے بات تو کردی، ذرا اسکا علمی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ جس طرح لباس اور انسان کے بیچ میں کوئی شے حائل نہیں ہوتی، اسی طرح ہی میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ ہے جس میں کسی تیسرے انسان کا عمل دخل نہیں۔ یہ رشتہ خلوت کے لمحات سے لے کر سے لیکر گھر اور خاندان کے رازوں تک ہے۔ شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی گھر کی امین ہے۔ ہمارے سامنے مثال سیدنا اسماعیل علیه الصلوة والسلام کی ہے جن کے نکاح کے کچھ عرصہ بعد انکے والد سیدنا ابراہیم علیه السلام انکے گھر پر آئے، حال چال  اور گھر کے معاشی حالات پوچھے۔ بہو نے تنگدستی کی شکایت کی۔ ابراہیمؑ نے بہو سے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو ان سے کہو کہ گھر کی چوکھٹ بدل لیں۔ جب اسماعیلؑ واپس آئے اور انکی زوجہ نے پوری کہانی بتائی تو فرمایا کہ وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اپنے سے جدا کرلوں۔ یوں انہوں نے اس خاتون کو طلاق دے کر دوسری شادی کرلی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ابراہیمؑ اپنے بیٹے کے گھر تشریف لے گئے۔ انہیں وہاں نہ پایا۔ نئی بہو سے بھی گھر کے معاشی حالات کے بارے دریافت کیا۔ بہو نے کہا کہ الحمد للہ، وقت اچھا گزر رہا ہے۔ فرمایا، جب تمہارے شوہر آئیں تو ان سے کہو کہ گھر کی چوکھٹ سلامت رکھیں۔ اسماعیلؑ گھر آئے تو زوجہ نے ساری کہانی بتائی تو فرمایا، وہ میرے والد تھے، اور تم چوکھٹ ہو۔ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اپنی زوجیت میں رکھوں۔

مائی لارڈ! ثابت ہوا کہ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کی باتوں کا علم ہونا چاہئیے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے نان نفقے کا ذمے دار ہے تو بیوی، گھر کے اندر آنے والی ایک ایک پائی کے بارے میں اپنے شوہر سے سوال کرنے کا حق رکھتی ہے۔ حدیث نبویﷺ ہے۔
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ یعنی، تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس سے اسکی رعایا کے بارے سوال ہوگا۔ قاضی فائز عیسی اپنے گھر کے حاکم ہیں، لہذا وہ اپنی زوجہ (اور بچوں) کے اثاثوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ شادی کے بعد وہ ہی انکے پہلے کفیل رہے ہیں۔ ان سے سوال اس لئیے بھی بنتا ہے کہ وہ ایک طاقتور پوزیشن پر ہیں لہذا وہ اپنے آپ کو ہمہ وقت احتساب کے لیے تیار رکھیں اور ٹیکنیلیٹیز میں نہ پڑیں۔ اگر وہ چاھتے ہیں کہ ایسا نہ ہو، تو ثبوت سامنے رکھ کر سب کو مطمئن اور خاموش کردیں ورنہ اپنے خیانت کی سزا پائیں، کرسی سے الگ ہوں اور کسی ایمان دار انسان کو موقع دیں۔ ورنہ سوالات اور تنقید کے نشتر برداشت کرنا سیکھیں۔

مائی لارڈ! آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ سپریم کورٹ کے باہر قرآن مجید کی آیت کا ایک حصہ آویزاں کیا گیا ہے جس کی تصویر یہ ہے

sc of pak1

یہ سورة ص کی آیت نمبر 26 ہے۔ اس کا معمولی سا پس منظر یہ ہے کہ سیدنا داودؑ اپنے وقت کے نہ صرف نبی تھے بلکہ بادشاہ بھی تھے اور قاضی، یعنی چیف جسٹس بھی۔ الله تعالی نے انہیں بیک وقت تین عہدے دیے تھے۔ ذرا دیکھئیے گا کہ الله نے اپنے نبی کو کیا نصیحت اور تنبیہہ کی ہے۔ بعدَ اعوذ بالله من الشیطن الرجیم

Ayat

ترجمہ: اے داود! ہم نے تمہیں زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، پس لوگوں میں سچ پر مبنی فیصلہ کرو۔ اور مفادات کا شکار نہ ہوجانا ورنہ الله کے راستے سے بھٹک جاو گے۔ بے شک وہ جو الله کے راستے سے بھٹک جائیں، انکے لیے سخت عذاب تیار ہے کیونکہ وہ یوم حساب کو بھلا بیٹھے۔

 

مائی لارڈ! الله نے داودؑ کو نبوت اور حکومت سے زیادہ عدل کے موضوع پر آزمایا۔ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ملکی تاریخ میں عدل کا ترازو طاقتور کی طرف جھکا ہے۔ عموما، فوج کو کہا جاتا ہے کہ اسے سیاست میں دخل نہیں دینا چاھئیے، مگر آپ لوگوں کی سیاسی وابستگیاں اور اس سے جڑے فائدے، آپکے فیصلوں میں واضح نظر آتے ہیں۔ اسی لیے، الله نے اپنے برگزیدہ نبی کو ایک نہیں، دو تنبیہیں کیں۔ کہ انصاف میں طاقتور کی طرف جھکاو نظر آیا تو پہلے، الله کے راستے سے دور اور دوسرا، جہنم کا عذاب۔ اسلئیے کہ منصف اگر دنیا میں کمزور کے حق میں انصاف کرے تو روز محشر اپنی جنت کھری کرلے گا۔ اور اگر طاقتور کے حق میں فیصلہ دیا تو شاید، دنیا کا عروج پاجائے مگر جہنم کا ٹھکانہ پکا کر بیٹھے گا۔ اگر الله، اتنے سخت الفاظ اپنے نبی کو کہہ رہا ہے تو، مائی لارڈ! آپکی کیا حیثئیت ؟

مائی لارڈ! الله نے آپکو انصاف کرنے کے لیے منصب پر بٹھایا ہے۔ اگر انصاف کرسکتے ہیں تو ایسا کیجئیے کہ ملک میں پِسی عوام کو نظر آئے کہ طاقتور کا احتساب ہو رہا ہے۔ اگر ماضی کا رویہ برقرار رکھنا ہے جس میں شواہد ہوتے ہوئے بھی عدلیہ پر حملے کرنے والوں، کھربوں لوٹنے والوں، ماڈل ٹاون میں دن دہاڑے معصوموں کا قتل کرنے والوں، بے ںظیر کی موت کے ذمہ داروں، پولیس مقابلوں میں بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں، بلدیہ ٹاون میں 260 لوگوں کو زندہ جلانے والوں، الیکشنوں میں دھاندلی کرکے اقتدارمیں آنے والوں، منی لانڈرنگ کرکے تمام براعظموں میں جائدادیں بنانے والوں، وکلا کا ہسپتال میں گھس کر مریضوں کے مارنے والوں سمیت لا تعداد جرائم کا خاموشی سے ساتھ دینا ہے، تو دست بستہ آپ سے گزارش ہے کہ سپریم کورٹ کے باہر سے قرآن مجید کی آیت اتار دیجئیے کیونکہ سپریم کورٹ ہر روز، توہین قرآن کی مرتکب ہو رہی ہے۔ بحیثئیت قوم، ہم جان چکے ہیں کہ انصاف کی لو، آپکے در پر آکر بجھ جاتی ہے۔

مائی لارڈ! میری تمام باتوں کو نظر انداز کردیجئیے گا۔ البتہ، آپ پر چارج شیٹ، نسیم حسن شاہ کر گئے تھے۔ افتخار احمد کے ساتھ  انکا انٹرویو ضرور دیکھئیے گا۔ شاہ صاحب نے کہا تھا ”جب ججز کی نوکری کا مسئلہ آتا ہے تو تمام جج اتنے بہادر نہیں ہوتے کہ اپنی نوکریوں کو قربان کرے انصاف کریں“۔ ججز کی سیاسی نوکری ہی مجرموں کو فائدہ دیتی ہے۔ یہی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اوپر دی گئی آیت کا شانِ نزول دوبارہ دیکھئیے اور سوچئیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––––

ٹویٹر پر اتباع کیجئیے

@periqlytos