پانامہ کے ہنگامے نے ملکی میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہر صحافی اور اینکر اپنے انداز اور مختلف زاویوں سے آراء قائم کرکے خبروں کا پیٹ بھر رہا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے عدالت کی بجائے تبصروں سے ہو رہے ہیں۔ کہیں بھولے سے یہ خبر آئی کہ برازیل کے سابق صدر لویز ایناسیو دا سیلوا کو کرپشن کی پاداش میں دس سال کے لیے جیل ہوگئی مگر ان کی کرپشن پر کوئی تبصرہ نہیں ہوا۔ (وہ جاننے کے لیے میری بلاگ پوسٹ یہاں پڑھئیے)۔ یوں سمجھ لیجئے کہ بے جا و بے ہنگم تبصروں نے ہمارے میڈیا کو تجزئیات کے سنڈاس میں یوں بدل دیا ہے کہ اس سے نکلنا بہت حد تک محال نظر آتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین، ارض فلسطین میں حالیہ بے چینی پانامہ کی لفاظیوں کی نذر ہوگئی ہے۔ 14 جولائی کو، مسجد اقصی شریف کے قریب دو اسرائیلی پولیس افسروں کو قتل کردیا گیا، جس کا الزام فلسطینیوں پر لگا اور اجتماعی خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا پڑا۔ اگلے ہی دن، مسجد اقصی، 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نماز جمعہ کے لیے بند کردی گئی۔ مسجد کے امام، شیخ محمد احمد حسین نے اسرائیلی پابندیوں کے خلاف، دس ہزار نمازیوں کی امامت کی۔ نماز کے فوری بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں کے بیچ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ صدر محمود عباس ابو مازن، کچھ دن بعد، خواب غفلت سے بیدار ہو کر اچانک متحرک ہوئے اور مسجد اقصی میں اسرائیلی پابندیوں کے خلاف “یوم الغضب” کا اعلان کر گئے۔ فلسطینی، سڑکوں پر نکل آئے۔ قابض فوجیں بھلا کہاں چپ رہتیں، ڈرپوک صہیونی، نہتے فلسطینیوں سے الجھ گئے اور ان پر ربر بُلیٹس فائر کردیں۔ نتیجتاً، سینکڑوں زخمی ہوگئے جن میں یوروشلم کے سابق مفتی، شیخ عکرمہ صبری بھی شامل تھے۔ ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس واقعے کو کتنی کوؤریج ملی، اسکا آپ خود اندازہ لگا لیجئیے۔
مسجد الاقصی
میرا میڈیا سے ایک چبھتا سوال ہے کہ فلسطین جیسے اہم مسئلے پر بات کرنے سے کیوں ڈرتے اور کتراتے ہیں؟ کیا آپ کے مالکان نہیں چاھتے کہ قوم میں ردی برابر آگہی آئے؟ کیا آپ بھول گئے کہ صحافت میں بہادری کی مثال مولانا محمد علی جوہر ہیں، جنہوں نے کلکتہ میں “دا کومریڈ” نامی انگریزی اخبار نکالا جسے ہندوستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں دلہی میں اردو اخبار “ہمدرد” نکالا، جس میں انہوں نے بلقان کی 1911 اور 1912 کی اس جنگ کے بارے میں لکھا جس میں سربیا، بلغاریا، فرانس، اٹلی اور یونان نے برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کی بنیادیں ہلا دیں۔ نتیجتاً، لیبیا پر اٹلی کا قبضہ ہوگیا۔ مولانا نے دونوں زبانوں کی اخباروں میں اس جنگ کے خلاف آواز اٹھائی اور برطانیہ کی بلقان ریاستوں ریاستوں کی مدد کی بھرپور مذمت کی۔ بعد ازاں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد برصغیر اور مشرق وسطی، بالخصوص فلسطین میں دگرگوں ہوتے حالات پر اردو زبان میں قلم آزمائی کی۔
دا کامریڈ اور ھمدرد
ان کاوشوں پر انہیں پابند سلاسل کردیا گیا۔ ان کی دونوں بیٹیاں ان کی زندگی میں علیل ہوگئیں۔ برطانوی راج نے چاہا کہ مولانا اس سے معافی مانگ لیں تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی عیادت کرسکیں۔ مگر انہوں نے برطانوی راج کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ یوں، دونوں دختران، طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ خود مولانا کی وفات لندن میں جنوری 1931ء میں ہوئی۔ انکا جنازہ فلسطین کے مفتی، امین الحسین نے پڑھایا اور انہیں وصیت کے مطابق، بیت المقدس الشریف کے قریب دفن کیا گیا۔ آج فلسطین میں انہیں “مجاھد العظیم مولانا محمد علی الہندی”، یعنی ہند کے مجاہدِ عظیم، محمد علی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کا مزار
ایک وہ میڈیا تھا جو صحیح اور درست خبروں سے قارئین کو آگاہ رکھ کر اپنی مثال قائم کرتا تھا اور ایک آج کا میڈیا ہے، جہاں منگھڑت اور پلانٹیڈ خبریں لگا کر قوم کو رسوا کیا جاتا ہے۔ اِن اداروں کے چلانے والے چند وہ لوگ ہیں جن کے چرِتّر اور کردار کے بارے میں بابا اقبال کہہ گئے تھے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم، ننگ دین، ننگ وطن
بے ڈھنگ اور لغویات سے بھرپور موضوعات کے چناو اور بے جہت گفتگو نے عوام کو ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ میڈیا بریکنگ نیوز اور ریٹنگز کی دوڑ میں اندھے ہو کر “اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی” کے مصداق، تمام اقدار پامال کر کے شرمناک حد تک آگے یوں نکل گیا ہیں کہ اصل معاملات کی طرف واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ پانامہ کے قضئیے کو ہی دیکھ لیجئیے؛ اس حد تک کوؤریج ہو رہی ہے جیسے دنیا کے دیگر موضوعات ہی ختم ہوگئے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی بہت حد تک دم توڑ گیا ہے۔ آج فلسطین میں دوسرے ہفتے بھی مسجد اقصی نماز جمعہ کے لیے بند رہی۔ قابض صہیونی فوجوں کے ساتھ جھڑپ میں کئی فلسطینی شہید، اور بہت سے زخمی ہیں۔ میڈیا پر تبصرہ اور نہ ہی خبر پر نقد و نظر۔ بس، سناٹے کی مانند مکمل خاموشی اس کے تغافل کا پیغام دے رہی ہے۔
اگر میڈیا کی فلسطین کے معاملے پر سرد مہری کے بارے میں بازپرس کریں تو “آزادی صحافت” خطرے میں پڑ جاتی ہے اور “صحافتی اقدار” پامال ہوجاتی ہیں۔ امت ڈوب جاتی ہے تو ڈوبے۔ میڈیا کی بلا سے۔ بھلا وہ کیوں بابائے قوم کی فلسطین کی حمایت میں کی گئی تقریر سے قوم کو آگاہ کریں گے۔ حضرت قائد اعظم (رح) نے نومبر 8، 1945 کو فرمایا تھا؛
“ہم مسلمانانِ ہند، اس مسئلے (مسئلہ فلسطین) پر عرب دنیا کے ساتھ ہیں۔ یہ سوال یہودیوں کا فلسطین کو اپنا وطن بنانے کا نہیں، بلکہ یہودیوں کا برطانوی خنجروں اور امریکی پیسوں سے فلسطین کو دوبارہ فتح کرنے کا ہے جسے وہ دو ہزار سال پہلے کھو چکے تھے۔ مجھے یہودیوں سے کوئی دشمنی نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ مہذب یورپ میں انکے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ہے۔ اگر انہوں نے فلسطین کو دوبارہ فتح کرنا ہے تو عربوں کا سامنا، برطانوی اور امریکی مدد کے بغیر کریں”۔
قائد اعظم، محمد علی جناح، علیه الرحمه
اپنی وفات (ستمبر 11، 1948) سے دو ہفتے قبل، 27 اگست 1948 کو عید الفطر پر قوم کو یہ پیغام دے گئے؛
“میرا پیغام برادر مسلم ممالک کو دوستی اور نیک تمناوں کا ہے۔ ہم ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں طاقت اور اقتدار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ اسکا مقابلہ ہم متحد اور یک زباں ہو کر ہی عالمی ضمیر تک پہنچا سکتے ہیں”
قائد اعظم اس دنیا سے پردہ کرگئے مگر فلسطین کا مسئلہ ان کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ کاش، ہمارا میڈیا تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر کچھ سبق حاصل کرے، اور اپنے آپ سے سوال کرے؛ کہ کیا وہ ہمیں متحد کر رہا ہے یا منتشر؟ کیا صحافت کی آڑ میں ہمیں دیگر موضوعات میں الجھا کر مخصوص مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ کہیں اندھی تقلید نے اس کو غیروں کا مقتدی تو نہیں بنا دیا؟
مولانا ظفر علی خان صاحب کا یہ شعر میڈیا کے لوگوں کے لیے چھوڑے جاتا ہوں
قلم سے کام تیغ کا، اگر کبھی لیا نہ ہو
تو مجھ سے سیکھ لے یہ فن اور اس میں بے مثال بن
مولانا ظفر علی خان
ہر چند، سلام سندیلوی کی یہ بات بھی سامنے آتی ہے
یہ تو معلوم ہے، ان تک نہ صدا پہنچے گی
جانے، کیا سوچ کے آواز دیئے جاتا ہوں
مگر امید پر دنیا قائم ہے۔ ایک آس ہے۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
_______________________________
ٹویٹر پر اتباع کریں
@periqlytos